Actual Islam Featured Image

عقیدہ تقدیر برحق ہے؍مردہ بچے کی نمازِ جنازہ

0 0
Read Time:8 Minute, 8 Second
تحریر:حافظ زبیر علی زئی

وعن ابن مسعود قال: حدثنا رسول اللہ ﷺ وھو الصادق المصدوق: (إنّ خلق أحدکم یجمع فی بطن أمہ أربعین یوماً نطفۃً، ثم یکون علقۃً مثل ذالک، ثم یکون مضغۃً مثل ذالک، ثم یبعث اللہ إلیہ ملکاً بأربع کلماتٍ: فیکتب عملہ و أجلہ ورزقہ وشقی أو سعید، ثم ینفخ فیہ الروح، فوالذی لا إلٰہ غیرہ !إن أحدکم لیعمل بعمل أھل الجنۃ حتیٰ ما یکون بینہ و بینھا إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أھل النار فیدخلھا، فإن أحدکم لیعمل بعمل أھل النار حتیٰ ما یکون بینہ و بینھا إلا ذراع ، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أھل الجنۃ فید خلھا) متفق علیہ(سیدنا) ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حدیث سنائی اور آپ سچے اور تصدیق شدہ ہیں: یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفے کی حالت میں رہتی ہے۔ پھر اسی طرح (چالیس دن) منجمد خون کا لوتھڑا، پھر اسی طرح (چالیس دن) گوشت کا ٹکڑا بنا ہوا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کے ساتھ ایک فرشتہ بھیجتا ہے تو وہ اس کا عمل ، موت کا وقت ، رزق اور بد قسمت ہو گا یا خوش قسمت لکھ دیتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے !تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو کتاب کا لکھا ہوا اس پر غالب آتا ہے اور وہ جہنمیوں کے سے اعمال کر کے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو کتاب کا لکھا ہوا اُس پر غالب آتا ہے اور وہ جنتیوں کے سے اعمال کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۶۵۹۴و صحیح مسلم: ۲۶۴۳[۲۷۲۳])

فقہ الحدیث:

۱: عقیدۃ تقدیر برحق ہے۔
۲: کون خوش قسمت ہے اور کون بدقسمت؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور اس نے اپنے علم سے، اسے تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔
۳: سچی توبہ کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں لہٰذا کسی توبہ کرنے والے شخص کو سابقہ گاہوں اور غلطیوں پر ملامت نہیں کرنا چاہیئے۔
۴: کفریہ عقائد و اعمال انسان کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں اور اسلامی عقائد و اعمال انسان کو اللہ کے فضل و کرم سے جنت میں داخل کر دیتے ہیں۔
۵: خاتمہ جن عقائد و اعمال پر ہوتا ہے اس کا اعتبار ہے لہٰذ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہیئے۔
۶: نبی کریم ﷺ ہر بات میں سچے اور امین تھے، چاہے نبوت سے پہلے کی زندگی تھی یا بعد کی، آپ ﷺ کے مخالفین بھی آپ کو سچا اور امین مانتے تھے۔
۷: جدید طبی تحقیقات نے اس حدیث کی تصدیق کر دی ہے جس سے اہلِ ایمان کا ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ وا الحمد للہ علیٰ کل حال
۸: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اگر پانچ ماہ یا زیادہ مدت والا بچہ مرُدہ پیدا ہو جائے یا پیدا ہوتے ہی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (و السقط یصلّٰی علیہ و یدعیٰ لوالدیہ بالمغفرۃ و الرحمۃ ) اور سِقط (ناتمام بچہ جو اپنی میعاد سے پہلے گر جائے) کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔ (سنن ابی داود: ۳۱۸۰ و سندہ صحیح،  سنن الترمذی: ۱۰۳۱، وقال: ‘‘حسن صحیح’’ و صححہ ابن حبان: ۷۶۹ و الحاکم علیٰ شرط البخاری۱؍۳۶۳ ووافقہ الذہبی)
اس حدیث کے راوی سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ نے فرمایا: سِقط کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۳؍۳۱۷ح ۱۱۵۸۹و سندہ صحیح)
سیدنا ابن عمر ؓ نے نا تمام مردہ بچے کی نماز جنازہ پڑھی ، نافع نے کہا کہ مجھے پتا نہیں کہ وہ زندہ پیدا ہوا تھا ( اور پھر مر گیا) یا پیدا ہی مردہ ہوا تھا۔ (ابن ابی شیبہ ۳؍۳۱۷ ح ۱۱۵۸، و سندہ صحیح)
مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر اس کی تخلیق پوری ہو جائے تو اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کی نمازِ جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی جس طرح بڑے آدمی کی پڑھی جاتی ہے۔ (ابن ابی شیبہ ۳؍۳۱۷ح۱۱۵۸۸، وسندہ صحیح)
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی نمازِ جنازہ پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ (ابن ابی شیبہ ۳؍۳۱۷ ح ۱۱۵۹۰ ، و سندہ صحیح)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: ‘‘و العمل علیہ عند بعض أھل العلم من أصحاب النبی ﷺ و غیرھم، قالوا : یصلیٰ علی الطفل و إن لم یستھل بعد أن یعلم أنہ خُلِق وھو قول أحمد و إسحاق’’ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے کہا: بچے کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ پیدا ہوتے وقت آواز نہ نکالے، یہ معلوم ہو جانے  کے بعد کہ اس کی تخلیق (مکمل) ہو چکی ہے اور احمد( بن حنبل) اور اسحاق (بن رواہویہ) کا یہی قول ہے۔ (سنن الترمذی: ۱۰۳۱)

جو علماء مردہ بچے کی نمازِ جنازہ کے قائل نہیں ہیں، ان کا قول نبی کریم ﷺ کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک و ناقابلِ حجت ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ ؓ  چھوٹے بچے پر نمازِ جنازہ میں درج ذیل دعا پڑھتے تھے:

‘‘ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ سَلَفاً وَّفَرَطًا وَّ ذُخْرًا’’ اے اللہ ! اسے امیرِ سامان، آگے چلنے والا اور ذخیرہ بنا دے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۴؍۱۰ ، وسندہ حسن)

 وعن سھل بن سعد قال قال رسول اللہ ﷺ : (إنّ العبد لیعمل عمل أھل النار و إنہ من أھل الجنۃ ، و یعمل عمل أھل الجنۃ و إنہ من أھل النار، وإنما  الأعمال بالخواتیم)۔ متفق علیہ(سیدنا) سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بندوں میں سے ) ایک بندہ جہنمیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے اور وہ جنتی ہوتا ہے۔ ایک بندہ جنتیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے اور وہ جہنمی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے۔ (صحیح بخاری: ۶۶۰۷ و صحیح مسلم: ۱۷۹؍۱۱۲[۳۰۶])


فقہ الحدیث:
۱: جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔
۲: کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
۳: اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
۴: تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔
۵: تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذرِ گناہ بد تراز گناہ کے مترادف ہے۔
۶: اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔
۷: اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہیئے۔
۸: مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔
وعن عائشۃ رضی اللہ عنھا، قالت، دعیٰ رسول اللہ ﷺ إلیٰ جنازۃ صبی من الأنصار فقلت: یا رسول اللہ !طوبیٰ لھٰذا، عصفور من عصافیر الجنۃ، لم یعمل السوء ولم یدرکہ، فقال: (أو غیر ذالک یا عائشۃ !إن اللہ خلق للجنۃ أھلاً، خلقھم لھا وھم فی أصلاب آبائھم و خلق للنار أھلاً خلقھم لھا وھم فی أصلاب آبائھم) ۔ رواہ مسلم
(سیدہ)عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک انصاری بچے کی (نمازِ) جنازہ (پڑھانے) کی دعوت دی گئی تو میں نے کہا: یا رسول اللہ ! اس بچے کے لئے خوشخبری ہو، یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے کوئی بُرائی نہیں کی اور نہ بُرائی کو پایا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: یا اس کے سوا ہے  اے عائشہ ! اللہ نے جنت کے لئے جنتیوں کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی پیٹھوں میں تھے اور اللہ نے دوزخ کے لئے دوزخیوں کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی پیٹھوں میں تھے ۔ (صحیح مسلم: ۳۱؍۲۶۶۲[۶۷۶۸])

فقہ الحدیث:
۱:کسی آدمی کے بارے میں قطعی فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ؟ اِلا یہ کہ جو قرآن و حدیث کی رُو سے واضح ہو۔
۲: مسلمانوں کے نابالغ فوت شدہ بچوں کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ راجح یہی ہے کہ یہ بچے اپنے جنتی والدین کے ساتھ جنتی ہیں۔ رہے کفار کے بچے تو راجح قول میں ان کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور کفار کے مردہ بچوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیئے۔
۳: سیدہ عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے مومنوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: وہ اپنے والدین کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے پوچھا: بغیر عمل کے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: اللہ جانتا ہے جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔ عائشہ ؓ نے پوچھا: مشرکین کی اولاد؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اپنے والدین کےساتھ ہے۔ انہوں نے پوچھا: بغیر عمل کے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ جانتا ہے جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔ (سنن ابی داود: ۴۷۱۲، وسندہ صحیح)

About Post Author

salahudin khan gorchani

I am Software Engineer ,Wordpress Web Developer and Freelancer
Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

About Author

Similar Posts

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *